Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan

منعل باریک جرابوں پر مسح کرنے کا حکم:

سوال:
   نائلون کے جرابوں کے نیچے یعنی تلوؤں پر اگر چمڑا سیا جائے، تو کیا اس پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:
   اس قسم کے جرابوں پرمسح کرنے کے جواز اور عدم جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے، لیکن عدم جواز والوں کا موقف چونکہ احتیاط پر مبنی ہے، اس لیے اس قسم کے جرابوں پر مسح کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
عدم جواز كے لیے ديكهيے:

جواہر الفقہ، مفتی محمد شفيع صاحبؒ،  فصل فی المسح على الجوربين 2/ 297:
احسن الفتاوی، مفتی رشید احمدصاحب، فصل فی المسح علی الخفین 2/ 64،65:
فتاوی دارالعلوم زکریا، مفتی رضاء الحق صاحب، باب المسح علی الخفین 1/ 275:
 جواز کے لیے دیکھیے:
فتاوی عثمانیہ، مفتی غلام الرحمن صاحب، کتاب الطہارت، باب المسح علی الخفین 1/ 400:
فتاوی دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب،  کتاب الطہارت، الباب الخامس فی المسح علی الخفین وغیرھما1/ 231:

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:86
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-16

 




دورانِ نماز سامنے والی دیوار پرلکھی ہوئی تحریر پڑھنا:

سوال:
   نماز کے دوران سامنے والی دیوار پر لکھے ہوئے کلمات پر نظر پڑی اور الفاظ  کو زبان سے ادا نہ کیا ہو، تو کیا اس سے نماز پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟
جواب:
   نماز کے دوران دیوار پر لکھی ہوئی تحریر پر نظر پڑنے سے اس وقت تک نماز فاسد نہیں ہوتی جب تک کہ اس کو زبان سے ادا  نہ کیا جائے، لیکن اگر دل ہی دل میں پڑھ لے، جس سے اس کا مطلب سمجھ میں آجائے، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، تاہم قصدا ایسا کرنا مکروہ اور برا ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب السابع فيمايفسدالصلاة، ومايكره فيها 2/ 101:
   إذا كان المكتوب على المحراب غير القرآن فنظر المصلي إلى ذلك، وتأمل، وفهم، فعلى قول أبي يوسف لا تفسد، وبه أخذ مشايخنا، وعلى قياس قول محمد تفسد، كذا في الذخيرة،  والصحيح أنها لا تفسد صلاته بالإجماع.
2. فتح القدير لابن الهمام، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة ومايكره 1/ 413:
   ولو نظر إلى مكتوب، وفهمه فالصحيح أنه لا تفسد صلاته بالإجماع.
3. تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة، ومالا يكره فيها1/ 399:
   قال رحمه الله: (ولونظر إلى مكتوب، وفهمه…) لا تفسد الصلاة بهذه الأشياء، أما النظر إلى المكتوب وفهمه فلأنه ليس بعمل مناف للصلاة، ولافرق بينا المستفهم وغيره.
4. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، فصل في ما لا يفسد الصلاة ص:123:
   (لونظر المصلي إلى مكتوب، وفهم) سواء كان قرآنا، أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب، ولم تفسد الصلاته؛ لعدم النطق بالكلام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:85
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 




باپردہ جگہ نہ ملنے کی صورت میں غسل کی جگہ تیمم کرنا:

سوال:
  ایک شخص پر غسل فرض ہے، لیکن لوگوں کا ہجوم ہے اور پردے کا انتظام نہیں ہے، تویہ شخص تیمم کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی شخص پر غسل واجب ہو اور وہاں پرپانی موجود ہو، لیکن نہانے کے لیے باپردہ جگہ نہ ہو، تو اگر مرد مردوں کے درمیان ہو یا عورت عورتوں کے درمیان ہو، تو ان پر غسل کرنا واجب ہے، بشرطیکہ کسی  کپڑے سے عورت كو چھپایا جائے، اگر مرد مردوں کے سامنے اور عورت عورتوں کے سامنے اتنا سترعورت بھی نہ کرسکے جو ان کے لے ضروری ہے،  توایسی  صورت میں نہانا جائز نہیں، بلکہ تیمم کرنا ضروری ہے ۔

حوالہ جات:
لمافي الحلبي الكبير لإبراهيم الحلبي،كتاب الطهارة، باب الغسل، ص: 45:
وفي القنية: عليه من الغسل وهناك رجال، لا يدعه، وإن رأوه، ويختار ما هو أستر، والمرأة تؤخره، يعني: إن كانت بين الرجال، والمرأة بين النساء كرجل بين الرجال.
2. البحرالرائق، باب الأنجاس 232/1:
المرأة إذا وجب عليها الغسل، ولا تجد سترة، وهناك رجال تؤخر الغسل قلت: ولعل محمل هذا إذا لم يمكنها الاغتسال في القميص الذي عليها، اللهم إلا أن يقال في إلزامها الاغتسال في القميص ونحوه حرج وإنه مرفوع شرعا فيلحق بالعجزإلخ.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:84
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 




عورت کی شرمگاہ میں انگلی داخل کر نے سے وجوب غسل میں تفصیل

سوال:
ایک مرد نے قصدا عورت کی شرمگاہ میں انگلی داخل کردی، تو ايسی عورت پر غسل واجب ہوگا یا نہیں؟
جواب:
اگریہ عمل علاجا ہو اور عورت کے اندر شہوت پیدا نہیں ہوئی تو محض انگلی داخل کرنے سے غسل واجب نہ ہوگا، لیکن اگر لذت حاصل کرنے کے لیے اس طرح کیا جائے تو احتیاطا عورت پر غسل واجب ہوگا، اگرچہ منی نہ نکلے۔

حوالہ جات:
لما في الحلبي الكبير إبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، باب الغسل، ص: 40:
وفي وجوب الغسل بإدخال الإصبع في القبل أو الدبر خلاف، والأولى أن يوجب في القبل، إذا قصد الإستمتاع لغلبة الشهوة فيهن غالبة، فيقام السبب مقام المسبب، وهو الإنزال دون الدبر، لعدمها.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 335:
رجل أدخل إصبعه في دبره وهو صائم، اختلف في وجوب الغسل والقضاء، والمختار أنه لايجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع ليس آلة للجماع فصار بمنزلة الخشب، ذكره في الصوم، وقيد بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصد الاستمتاع؛ لأن الشهوة فيهن غالبة، فيقام السبب مقام المسبب، دون الدبر لعدمها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:83
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 

 




بیت الخلا جاتے وقت سر ڈھانکنے کا حکم:

سوال:
   بیت الخلا جاتے وقت سر کوڈھانکنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگرہے تو حدیث کا حوالہ بھی دیں؟ 
جواب:
   بیت الخلا جاتے وقت سر کو ڈھانپنا سنت ہے، چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلا جاتے، تو جوتے زیب تن فرماتے اور سر کو ڈھانک لیتے۔

حوالہ جات:
1. السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الطهارة، باب تغطية الرأس عند دخول الخلاء، الرقم: 456:
   ”عن حبيب بن الصالح قال:كان رسول الله ﷺ إذا دخل الخلاء لبس حذاءه، وغطى رأسه.
2. إعلاء السنن لظفر أحمد العثماني، باب  آداب الاستنجاء 1/ 450، تحت الرقم: 451:
   ”عن حبیب  بن الصالح إلخ“ قلت: فیه دلالة على ندب لبس الحذاء عند دخول المرفق أي: الخلاء … وعلى استحباب تغطية الرأس حياء من الله.
3. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، آداب دخول الخلاء 1/ 421:
   إذا أراد الإنسان دخول الخلاء، وهو بيت التغوط، يستحب له أن يدخل بثوب… ويدخل مستور الرأس.
4. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهار، مطلب: في تتميم مندوبات الوضوء 1/ 268: 
   ودخوله الخلاء مستور الرأس.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:82
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 




دو دن کے بعد خون کا بند ہونا اور پندرہ دن سے پہلے دوبارہ آنا:

سوال:
   ایک عورت کو دو دن خون آیا، پھر دس دن بند رہا، پھر گیارہویں اور بارہویں دن كو خون آیا، تو اس کو حیض کہا جائے گا یا استحاضہ؟
جواب:
   واضح رہے کہ دو حیضوں کے درمیان پاکی کی مدت کم ازکم پندرہ دن ہے، لہذا مذكوره صورت میں اگرعورت کو پہلی مرتبہ خون آیا ہو یا اس کی عادت دس دن کی ہو، تو پہلے دس دن حیض شمار کيے جائیں گے، اور باقی استحاضہ، اور اگرعادت دس دن سے کم ہو، توعادت كے ايام تک حیض شمار ہوگا اور باقی استحاضہ۔ 

حوالہ جات:
1. فتح القديرلابن الهمام، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 175:
   و روى أبويوسف عنه، وبه أخذ أن الطهر إذا كان أقل من خمسة عشر لا يفصل … فلو رأت مبتدأة يوما دما، وأربعة عشر طهرا، ويوما دما، كانت العشرة الأولى حيضا، يحكم ببلوغها به، ولو رأت المعتادة قبل عادتها يوما دما وعشرة طهرا ويوما دما، فالعشرة التي لم تر فيها الدم حيض، إن كان عادتها عشرة، فإن كانت أقل، ردت إلى أيامها.
2. البحرالرائق لزين الدين بن نجيم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 356:
   فالأصل عند أبي يوسف، وهو قول أبي حنيفة الآخر على ما في المبسوط، أن الطهر المتخلل بين الدمين، إذا كان أقل من خمسة عشر يوما، لا يصير فاصلا، بل يعد كالدم المتوالي.
3. الفتاوى السراجية لعلي بن عثمان، كتاب الطهارة، باب الحيض والنفاس، ص:50:
   الطھرالمتخلل بین الدمین في مدة الحيض كالدم الجاري.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:81
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15




بچے کو دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا:

سوال:
اگر کوئی عورت  بچے کو دودھ پلائے، تو اس سے وضو ٹوٹے گا یا نہیں؟ 
جواب:
   بچے کو دودھ پلانے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ وضو اس وقت ٹوٹتا ہےجب بدن سے کوئی ناپاک چیز نکلنے اور عورت کا دودھ ناپاک نہیں۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، نواقض الوضوء 1/ 138:
   قال ابن عباس رضي اللہ عنهما:  الوضوء مما یخرج، یعني الخارج النجس.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 45:
   (وينقضه خروج نجس منه) أما السبيلان فخروج كل شيء منهما ناقض، وأما غير السبيلين إذا خرج منه شيء، ووصل إلى موضع يجب تطهيره في الجنابة.


واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:80
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 




ایک ہی رکعت میں دو مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص نماز میں دو مرتبہ ٓسو رۂ فاتحہ پڑھ لے، تو اس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا، یا نہیں؟
جواب:
   فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں اور سنن ونوافل کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، لہذا اگر سورۂ فاتحہ ایک ہی رکعت میں دو مرتبہ متصلا پڑھ لی تو سجدۂ سہو واجب ہوگا، لیکن اگر درمیان میں کوئی دوسری سورت پڑھی ہو، تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 166:
   ولو قرأ الفاتحة مرتين يجب عليه السجود؛ لتأخيرالسورة… وذكر قاضيخان وجماعة: أنها إن قرأها مرتين على الولاء وجب السجود، وإن فصل بينهما بالسورة لا يجب.
2. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 322:
   ولو قرأ الفاتحة مرتین متوالیتین وجب، لا إن فصل بینھما بالسورة، وھو الأصح.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 472:
   ولو کررھا في الأوليين يجب عليه سجود السهو؛ لأنه أخر واجبا، وهو السورة، بخلاف ما لو أعادها بعد السورة، أو كررها في الأخريين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:79
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15

 




مسجد میں ہوا خارج کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   بوقتِ ضرورت مسجد میں ہوا خارج کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   شدید مجبوری کے بغیر مسجد میں ہوا خارج کرنا مکروہ ہے، بوقت ضرورت مسجد سے باہر نکلنا چاہیے، تاہم جس کو یہ عذر مستقل طور پر درپیش ہو اور بار بار مسجد سے نکلنے میں حرج ہو اس کو چاہیے زیادہ وقت مسجد میں نہ گزارے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، مطلب في أحكام المسجد 1/ 656: 
   لا یخرج فيه الريح من الدبر، كما في الأشباه، واختلف فيه السلف، فقيل: لا بأس، وقيل: يخرج إذا احتاج إليه، وهو الأصح.
2. أيضا، كتاب الطهارة، سنن الغسل 1/ 172:
   وإذا فسا في المسجد، لم ير بعضهم به بأسا، وقال بعضهم: إذا احتاج إليه يخرج منه، وهو الأصح.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد 5/321:
  واختلف في الذي يفسو في المسجد، فلم ير بعضهم بأسا، وبعضهم قالو: لا يفسو، ويخرج إذا احتاج إليه، وهو الأصح.
وفي غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، فصل في أحكام المسجد، ص: 528:
قال النووي في شرح المهذب: لا يحرم للإنسان أن يخرج الريح من دبره فيه، قال السروجي: وهذا عندنا مكروه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:78
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15




دوران وضو گھنی داڑھی کے بالوں کا دھونا فرض ہے یا مستحب؟ :

سوال:
   دوران وضو گھنی داڑھی کے بالوں کا دھونا فرض ہے یا مستحب؟ اور جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے یا صرف بالوں کا مسح کرنا کافی ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ جب داڑھی اتنی گھنی ہو جس کے نیچے کھال كی رنگت نظر نہ آتی ہو، تو داڑھی کے ان بالوں کا دھونا ضروری ہے، جو چہرے کے حدود کے اندر ہوں، یعنی نچھلے جبڑے کے اوپر سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک، باقی داڑھی کے نیچے کھال تک یا بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے، اور نہ داڑھی کے ان بالوں کا دھونا ضروری ہے، جو چہرے کے حدود سے باہر ہیں، تاہم گھنی داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے خلال کرنا سنت ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1/ 4:
   ويغسل شعر الشارب والحاجبين، وما كان من شعر اللحية على أصل الذقن، ولا يجب إيصال الماء إلى منابت الشعر، إلا أن يكون الشعر قليلا تبدوا منه المنابت، كذا في فتاوى قاضي خان … وروي عن أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، أنه يجب إمرار الماء على ظاهر اللحية، هو الأصح، كذا في التبيين، وهو الصحيح، كذا في الزاهدي، والشعر المسترسل من الذقن لا يجب غسله، كذا في المحيطين.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 33:
  وروي عن أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، أنه يجب إمرار الماء على ظاهر اللحية، وهو الأصح؛ لأنه لما تعسر غسل ما تحت الشعر، انتقل الواجب إليه من غير تغيير كالحاجبين وأهداب العينين، وأقرب منه مسح الرأس؛ لأنه لما تعسر انتقل الوظيفه إلى الشعر من غير تغيير، وهذا كله في غير المسترسل، وأما المسترسل عن الذقن، فلا يجب إيصال الماء إليه؛ لأنه ليس من الوجه.
3. الهداية للمرغيناني، كتاب الطهارات، باب الوضوء 1/ 16:
   وسنن الطهارة…وتخليل اللحية ؛.لأن النبي عليه الصلاة والسلام أمره جبريل عليه السلام بذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:77
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-15