وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں نماز کا حکم:
سوال:
زید مردان میں ہاسٹل میں رہتا ہے، جبکہ اس کا اپنا علاقہ گلگت ہے، اور ہاسٹل میں پندرہ (15) دن سے زیادہ عرصہ گزارا ہے، اب جب زید واپس گلگت جاکر واپس مردان میں ہاسٹل میں صرف ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہے، تو زید قصر کرےگا یا اتمام؟
جواب:
زید نے جب مردان ہاسٹل میں سکونت اختیار کرکے ایک مرتبہ پندر(15) دن یا اس سے زیادہ عرصہ گزارا، تو مردان اس کا وطن اقامت بن گیا اور وطن اقامت بننے کے بعد جب تک یہاں سے مکمل طور پر سامان وغیرہ لے کرسکونت ختم نہ کیا ہو، تو محض کچھ عرصہ کے لیے جانے گلگت جانے سے اس کا وطن اقامت ختم نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ صورت میں زید اگر ایک ہفتہ بھی مردان ہاسٹل میں گزارے گا، تو پوری نماز پڑھے گا۔
حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 239:
وقيل: تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا، فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل، وإن أقام بموضع آخر.
2. الدر المختار للحصکفي، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 2/ 739:
(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته، أو تأهله، أو توطنه، (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيها (لا غير) (و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بإنشاء (السفر)، الأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه.
قال ابن عابدين تحت قوله: (أو توطنه) أي: عزم على القرار فيه، وعدم الارتحال، وإن لم يتأهل.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:96
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20