Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan

وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں نماز کا حکم:

سوال:
   زید مردان میں ہاسٹل میں رہتا ہے، جبکہ اس کا اپنا علاقہ گلگت ہے، اور ہاسٹل میں پندرہ (15) دن سے زیادہ عرصہ  گزارا ہے، اب جب زید واپس گلگت جاکر واپس مردان میں ہاسٹل میں صرف ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہے، تو زید قصر کرےگا یا اتمام؟
جواب:
   زید نے جب مردان ہاسٹل میں سکونت اختیار کرکے ایک مرتبہ پندر(15) دن یا اس سے زیادہ عرصہ گزارا، تو مردان اس کا وطن اقامت بن گیا اور وطن اقامت بننے کے بعد جب تک یہاں سے مکمل طور پر سامان وغیرہ لے کرسکونت ختم  نہ کیا ہو، تو محض کچھ عرصہ کے لیے جانے گلگت جانے سے اس کا وطن اقامت ختم نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ صورت میں زید اگر ایک ہفتہ بھی مردان ہاسٹل میں گزارے گا، تو پوری نماز پڑھے گا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 239:
   وقيل: تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا، فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل، وإن أقام بموضع آخر.
2. الدر المختار للحصکفي، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 2/ 739:
   (الوطن الأصلي) هو موطن ولادته، أو تأهله، أو توطنه، (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيها (لا غير) (و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بإنشاء (السفر)، الأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (أو توطنه) أي: عزم  على القرار فيه، وعدم الارتحال، وإن لم يتأهل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:96
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




حالت ِسفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم:

سوال:
   سفرکی حالت میں سنت نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مسافر اگرکسی جگہ اطمینان کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہو، تو فرائض کے ساتھ سنتیں بھی پڑھنا افضل ہے  اور اگر جلدی میں ہو، یا سفر جاری ہو، توسنتیں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کے بارے میں احادیث میں بہت تاکید آئی ہے، اس لیےسفر میں بھی فجر کی سنتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 230:
   وفي التنجيس: والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها مكملات، والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنها ترك لعذر.
2. الدر الختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 737:
   (ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار، وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها، وهو المختار؛ لأنه ترك لعذر”تنجيس” قيل: إلا سنة الفجر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:95
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




تکلیف کی وجہ سے آنکھ سے نکلنے والے پانی کا وضو پر اثر:

سوال:
   وہ پانی جو آنکھ میں درد ہونے کی وجہ سے نکلے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اس مسئلہ میں کتب فتاوی میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے، بعض حضرات نے اس کو مطلقا ناقض وضو قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے اس میں تفصیل کی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر آنکھ سے نکلنے والا پانی کا رنگ زرد یا سرخ ہو تو اس سے وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں، لیکن احتیاط کا تقاضہ یہ ہے، کہ اگر آنکھ میں درد یا زخم ہو تو صاف پانی  نکلنے کی صورت میں بھی ا س  کو ناقض وضو قرار دیا جائے، نیز اگر یہ آنسو مسلسل آرہے ہوں تو معذور کے حکم پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفي، کتاب الطھارة، نواقض الوضوء 1/ 305:
   (وإن خرج به) أي بوجع (نقض)؛ لأنه دليل الجرح.
2. ردالمحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة 1/ 306:
   وظاھرہ أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع.
3. النهر الفائق للزيلعي، كتاب الطهارة  1/ 53:
   ولو في عينه رمد أو عمش يسيل منها الدموع، قالوا: يؤمر بالوضوء.
4. الفتاوى التاتارخانية، كتاب الطهارة، الفصل الثاني، ما يوجب الوضوء 1/ 244:
   وفي نوادر هشام عن محمد: الشيخ إذا كان في عينه رمد أو عمش، ويسيل منهما الدموع، آمره بالوضوء لوقت كل صلاة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:94
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




چوری یا ڈکیتی میں مارےجانے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص چوری یا ڈکیتی میں مارا جائے، تو اس کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اگر کوئی شخص  ڈکیتی کے دوران مارا جائے، تو اس کو  زجرا نہ غسل دیا جائے اور نہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے، البتہ اگر بعد ميں ان كو قتل كيا جائے يا خود مرجائيں تو ان كو غسل ديا جائے گا اور نماز جنازه بھی پڑھی جائے گی، تاہم اگر چور چوری کرتے ہوئے مارا جائے، تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، لیکن جنازہ میں پیشوا اور مقتدا لوگ شرکت نہ کریں، تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کر کے اس برے عمل سے  اپنے آپ کو بچائیں۔

حوالہ جات:
1. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب الشهيد 1/ 596:
   قالؒ: (لا لبغي وقطع طريق) أي: لا من قتل لأجل بغي، بأن كان مع البغاة، ولا من قتل لأجل قطع طريق، فإنهما لا يغسلان، ولا يصلى عليهما أيضا إهانة لهما … وقيل: هذا إذا قتلا في حالة المحاربة قبل أن تضع الحرب أوزارها، وأما إذا قتلا بعد ثبوت يد الإمام عليهما، فإنهما يغسلان، ويصلى عليهما، وهذا تفصيل حسن أخذ به الكبار من المشايخ.
2. شرح بلوغ المرام لعية سالم، الصلاة خلف السلطان الفاجر ومن نصبه إماماً وهو فاجر 10/88:
  وقد جاء في الأثر: (صلوا خلف كل بر وفاجر، وصلوا على كل بر وفاجر) ، فإذا مات فاجر أنقول: هذا فاجر لا نصلي عليه ولانجهزه؟ بل نجهزه، ونصلي عليه؛ لأنه له حقاً علينا في ذلك.
3. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الصلاة، باب الشهيد 1/ 434:
   ومن قتل من البغاة أو قطاع الطريق، لم يصل عليه؛ لأن عليا رضي الله عنه لم يصل على البغاة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:93
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




ناراض مقتدیوں کی امامت کرنےکا حکم:

سوال:
   اگر کسی امام سے محلے والے ناراض ہوں، تو اس امام کی امامت کا شرعا کیا حکم ہے؟  
جواب: 
   اگر کسی امام سے سارے یا اکثر محلے والے کسی دینی حکم کی وجہ سے ناراض ہوں، جیسے امام کسی گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، تو یہ ناراضگی معتبر ہے اور اس قسم کے امام کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اور اگر ناراضگی امام سے کسی ذاتی مسئلہ کی بنیاد پر ہو، تو ایسی ناراضگی معتبر نہیں، مقتدیوں کو چاہیے کہ اپنے طرز عمل کو تبدیل کرکے امام سے معافی مانگیں اور اس کو راضی کریں۔

حوالہ جات:
1. بذل المجهود لخليل أحمد السهارنفوري، كتاب الصلاة، باب الإمامة 4/ 143، تحت الرقم: 593:
   عن عبدالله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول :ثلاثة: لا يقبل الله منهم صلاة، من تقدم قوما، وهم له كارهون إلخ، وقد قيد ذلك جماعة من أهل العلم بالكراهة الدينية بسبب شرعي، فأما الكراهة لغير الدين فلا عبرة بها، وقيدوه أيضا بأن يكون الكارهون أكثر المأمومين… وعند الحنفية الكراهة تحريمية.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3/ 527:
   (ولو أمّ قوما، وهم له كارهون إن) الكراهة (لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة منه، كره) له ذلك تحريما؛ لحديث أبي داود:­ ”لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما، وهم له كارهون“ (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم.
3. البحر الرائق  لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1/ 609:
   وفي الخلاصة وغيرها: رجل أم قوما، وهم له كارهون، إن كانت الكراهية لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة، يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة، لا يكره له ذلك اه، وفي بعض الكتب: والكراهة على القوم، وهو  ظاهر؛ لأنها ناشئة عن الأخلاق الذميمة، وينبعي أن تكون تحريمية في حق الإمام في صورة الكراهة؛ لحديث أبي داود.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:92
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




منی نکلنے سے غسل کب فرض ہوگا؟:

سوال:
   اگر زید کسی عورت سے ہنسی مذاق یا شہوت انگیز باتیں کر رہا ہو، جس کی وجہ سے اس کی منی خارج ہوگئی، تو اس پر غسل لازم ہے یا نہیں؟ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پیٹ کی خرابی یا کسی اور وجہ سے شہوت کی بغیر بھی منی کے قطرات نکل آتے ہیں، تو ایسی صورت میں اس پر غسل واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی اجنبی عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا نا جائز ہے، جس پر دل سے استغفار کرنا ضروری ہے، تاہم اگر اس کی وجہ سے منی قوت كے ساتھ نکل آئے تو اس سے غسل واجب ہوگا، اور اگر منی نہیں نکلی بلکہ مذی نکلی (جو ملاعبت کے دوران نکلتی ہے اور اس سے شہوت  ختم نہیں ہوتی) تو اس سے غسل اگرچہ واجب نہیں ہوگا، لیکن اس جگہ کو دھونا ضروری ہوگا، جہاں مذی لگی ہے، لیکن اگر منی کے قطرے بغیر لذت کے پیٹ کی خرابی یا وزنی چیز اٹھانے کی وجہ سے نکلے، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطهارة، فصل في الغسل 1/ 45:
   (والمعاني الموجبة للغسل: إنزال المني على وجه الدفق والشهوة من الرجل والمرأة حالة  النوم واليقظة).
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 65:
   (وفرض) أي: الغسل (عند مني ذي دفق وشهوة عند إنفصاله) … والشهوة شرط عندنا.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، باب احكام الغسل 1/ 146:
    خروج المني عن شهوة دفقا من غير إيلاج بأي سبب حصل الخروج كاللمس والنظر والإحتلام حتى يجب الغسل بالإجماع۔

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:91
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




وضو کے دوران بھولے سےکسی عضو کاخشک رہ جانا:

سوال:
   ایک آدمی وضو کررہا تھا اور بھولے سے ایک عضو رہ گیا اور بعد میں یاد آگیا، تو یہ شخص از سر نو وضو کرے گا یا صرف اسی عضو کا دھونا کافی ہے؟
جواب:
  کسی عضو کے خشک رہ جائے کی صورت میں صرف اسی عضو کو دھونا کافی ہے، از سرِ نو وضو بنانا ضروری نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة، فرائض الغسل، ص: 44:
   ولو تركها أي: ترك المضمضة أو الاستنشاق أو لمعة من أي موضع كان من البدن ناسيا، فصلى، ثم تذكر ذلك، يتمضمض أو يستنشق أو يغسل اللمعة، ويعيد ما صلى.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، الماء المستعمل 1/ 168:
   إذا توضأ أو اغتسل، وبقي على يده لمعة، فأخذ البلل منها في الوضوء، أو من أي عضو كان في الغسل، وغسل اللمعة يجوز.
3. الفتاوى الهنديه للجنة العلماء، كتاب الطهارة 1/ 5:
   ولو بقیت على العضو لمعة، لم يصبها الماء، فصرف البلل الذي على ذلك العضو إلى اللمعة جاز، كذا في الخلاصة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:90
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-18

 




دورانِ نمازچھینک آنے پر الحمدللہ کہنا

سوال:
نماز کے دوران چھینک آنے پرالحمد للہ کہنے سے نماز فاسد ہوگی یا نہیں؟
جواب:
نماز کے دوران چھینک آنے پر الحمدللہ کہنے سے نماز گو فاسد نہیں ہوتی، مگر نماز میں قصدا اس قسم کے الفاظ نہیں کہنے چاہیے۔

حوالہ جات:
لما في المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصلاة، الفصل الخامس، في بيان مايفسد الصلاة ومالايفسد 2/ 147:
وعن بعض المشایخ: أن المصلي إذا عطس، فقال لنفسه: يرحمك الله يانفسي، لاتفسد صلاته؛ لأن هذا ليس بكلام؛ لأن الإنسان لا يتكلم مع نفسه، فصار كأنه قال: يرحمني الله، أوقال: الحمد الله، وهناك لاتفسد صلاته كذا ههنا.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الفصل السابع فيما يفسد الصلاة ومايكره فيها 1/ 101:
ولو عطس في الصلاة، فقال له المصلي: الحمد الله لاتفسد؛ لأنه ليس بجواب، وإن أراد به جوابه، أو استفهامه فاالصحيح أنها تفسد، ولو قال العاطس لاتفسد صلاته، وينبغي أن يقول في نفسه والأحسن هو السكوت.
وفي تبين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة، وما يكره فيها1/ 388:
قال رحمه الله: (یفسدالصلاة التكلم)… قال رحمه الله: (وجواب عاطس بيرحمك الله) ؛لأنه يجري في مخاطبات الناس فصار كما لو قال: أطال الله بقائك، فكان من كلامهم بخلاف ما إذا قال العاطس لنفسه: يرحمك الله؛ لأنه دعاء لنفسه، أو قال هو أو غيره: الحمد الله رب العالمين؛ لأنه لم يتعارف جوابا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:89
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-18

 




نابالغ بچے کا امام کو لقمہ دینا:

سوال:
   اگر کوئی فاتح (لقمہ دینے والا) نابالغ ہو، تو لقمہ دینے کے لیے اس کا پہلی صف میں کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں؟ 
جواب:
   اگر بالغ حافظِ قرآن بسہولت میسر نہ ہو اور پچھلی صف سے لقمہ دینے میں مشکلات ہوں تو نابالغ کو پہلی صف میں کھڑے کرنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، مطلب في الكلام على الصف الاول 2/ 377:
   (ويصف)… (الرجال) ظاهره … (ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل صف.
2. الفتاوى التاتارخانية، لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، الفصل ما يفسد الصلاة وما لا يفسد 2/ 226:
   إذا أفتح الصبي المراهق على الإمام، هل تبقى صلاة الإمام صحيحة، قال: نعم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:88
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-18

 




محلے کی مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں نماز پڑھنا:

سوال:
   محلے کی مسجد جو بہت چھوٹی ہو جس میں کبھی کبھار صرف دو، یا تین آدمی نماز پڑھتے ہوں، اس میں نماز پڑھنا  بہتر ہے یا دوسرے محلے کی جامع مسجد میں جبکہ وہاں با جماعت نماز یقینی ہو اور لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہو؟
جواب:
   اگر محلے کی مسجد کا امام صحیح العقیدہ ہو تو اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا بہتر ہے، اگرچہ اس میں نمازی کم ہوں؛ کیونکہ محلے کی مسجد کو آباد کرنا اہلِ محلہ کے ذمہ داری ہے، اور نمازیوں کا کم ہونا مسجد چھوڑنے کے لیے کوئی معقول عذر نہیں۔

حوالہ جات:
1. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الصلاة، فصل في أحكام المسجد 1/ 528:
   ومسجد حيه، وإن قل جمعه، أفضل من الجامع، وإن كثر جمعه.
2. خلاصة الفتاوى للطاهر بن عبد الرشيد، كتاب الصلاة 1/ 228:
   رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع، ولا يصلي في مسجد حيه، فإنه يصلي في مسجد منزله وإن كان قومه أقل ، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن، فإنه يؤذن ويصلي، وإن كان هناك واحد، فإن كان لا يحضر أحد، كيف يصنع المؤذن؟ قال يؤذن ويقيم ويصلي وحده … إذا كان إمام الحى زانيا أو آكل الربوا له أن يتحول إلى مسجد آخر.
3. التاتارخانية لعالم بن علاء، كتاب الصلاة، ما يفعل المنفرد إذا أقيمت الصلاة 2/ 314:
   رجل له مسجد في محلته أراد أن يحضر المسجد الجامع لكثيرة جمعه، لا ينبغي له أن يحضره ، والصلاة في مسجده أفضل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:87
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-16