Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan Month: September 2023 - Darul Ifta Mardan

غلط فہمی کے وجہ سے مقیم کا قصر والی نمازیں پڑھنا:

سوال:
   میں اٹک شہر کا رہنے والا ہوں، ٹریننگ کے سلسلہ میں دو مہینوں کے لیے تربیلہ تبادلہ ہوا ہے، اور ہفتے میں ایک بار گھر آتا ہوں، کئی دن میں نے تربیلہ میں پوری نماز پڑھی، مگر بعد میں کسی نے بتایا، کہ آپ یہاں مسافر ہیں، لہذا قصر کیا کریں، بعد میں میں نے قصر شروع کردی، تو میری کونسی نمازیں درست ہیں؟  
جواب:
   واضح رہے کہ اٹک شہر سے تربیلہ تک بذریعہ موٹروے (74) کلومیٹر اور بذریعہ جی ٹی روڈ (72) کلو میٹر بنتا ہے، اس لیے تربیلہ میں آپ شرعی لحاظ سے مسافر نہیں بنتے، اور آپ کو جس نے مسئلہ بتایا ہے، وہ درست نہیں، چنانچہ آپ نے جو نمازیں پوری پڑھی ہیں،وہ درست ہیں،اورجو نمازیں قصر  کرکے پڑھی ہیں، ان نمازوں کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا، تاہم اگر آپ کسی ایسے راستے سے تربیلہ آتے ہوں جس کی مسافت سوا ستتر کلومیٹر سے زیادہ بنتی ہو تو پھر آپ کی قصر والی نمازیں درست ہوں گی اور دوسری نمازوں کا اعادہ کرنا ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الصحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء، الرقم:350:
   عن عائشة رضي الله عنها قالت: فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في الصلاة الحضر.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب المسافر 1/ 137:
   أقل مسافة تتغير فيها الأحكام، مسيرة ثلاثة أيام، كذا في التبيين، وهو الصحيح، كذا في جواهر الاخلاطي.
 3. غنية المتملي لإبرهيم الحلبي، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر1/ 461:
   اعلم أن أقل مدة السفر عندنا، مسافة ثلاثه أيام من أقصر أيام السنة بالسير الوسط، وهو مثل الأقدام، والإبل في البر، واعتدال الريح في البحر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:43
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-28




@123خواتین کے لیےاستنجا ميں ڈھیلا وغیرہ استعمال کرنے کا حکم

سوال:
استنجا کے وقت مردوں کی طرح عورتوں کو بھی ڈهیلا استعمال کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
جواب:
استنجا کے لیے پانی کے ساتھ ڈھیلوں یا ٹائلٹ پیپر کا استعمال کرنا مستحب ہے، اور یہ جس طرح مردوں کے لیے مستحب ہے، اس طرح عورتوں کے لیے بھی مستحب ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، فصل في الاستنجاء مطلب:إذا دخل المستنجي في ماء قليل1/ 337:
قلت بل صرح في الغزنوية: بأنها تفعل كما يفعل الرجل إلا في الاستبراء فإنها لا استبراء عليها، بل كما فرغت من البول والغائط تصبر ساعة لطيفة، ثم تمسح قبلها ودبرها بالأحجار ثم تستنجي بالماء.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب الثالث في الاستنجاء 1/ 48:
وصفة الاستنجاء بالأحجار أن يجلس معتمدا على يساره منحرفا عن القبلة والريح، والشمس، والقمر، ومعه ثلاثة أحجار يدبر بالأول، ويقبل بالثاني، ويدبر بالثالث. قال أبو جعفر: هذا في الصيف أما في الشتاء فيقبل بالأول، ويدبر بالثاني، ويقبل بالثالث، والمرأة تفعل في جميع الأوقات مثل ما يفعل الرجل في الشتاء…والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة.
وفي مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الطهارة، فصل في الاستنجاء 1/ 18:
وصفة الاستنجاء ليس إلا قسما واحدا، وهو إنه سنة مؤكدة للرجال والنساء؛ لمواظبة النبي ﷺ، ولم يكن واجبا لتركه عليه الصلاة والسلام له في بعض الأوقات، وقال عليه الصلاة والسلام: من استجمر فليوتر ومن فعل هذا فقد أحسن، ومن لا فلا حرج.
وفي فتاوى التاتارخانية لعالم بن العلاء الهندي، كتاب الطهارة، نوع منه في بيان سسن الوضوء وآدابه 1/ 209:
وقيل في كيفية الاستنجاء بالأحجار إن الرجل في زمان الصيف يدبر بالحجر الأول، ويقبل بالثاني، ويدبر بالثالث… وفي الشتاء يقبل بالحجر الأول ؛ لأن في الصيف خصيتيه متدليتان، فلو أقبل بالأول يتلطخ خصيتاه، ولا كذلك في الشتاء، والمرأة تفعل في الأحوال كلها مثل ما يفعل الرجل في الشتاء، وقيل: المقصود هو الإنقاء فيفعل على أي وجه  يحصل المقصود.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:27
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-28

 




ناپاک کارپٹ کو پاک کرنے کا طریقہ@123

سوال:
مسجد کے کارپٹ پر ایک بچے نے پیشاپ کیا ہے، اب وہ پیشاپ بالکل خشک ہو چکا ہے، کارپٹ پر اس کا اثر بھی نہیں ہے، تو کیا خشک ہو جانے کی وجہ سے کارپٹ پاک ہو گیا ہے یا نہیں، اگر پاک نہیں ہوا تو پاک کرنے کی کیا صورت ہوگی؟
جواب:
واضح رہے کہ کارپٹ صرف خشک ہونے سے کارپٹ  پاک نہیں ہوتا ہے، بلکہ جس جگہ پر بچے نے پیشاپ کیا تھا، اس کا دھونا ضروری ہے اور دھونے کا طریقہ یہ ہے کہ اس ناپاک جگہ کو تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھو کر اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ اس سے پانی ٹپکنا بند ہو جائے، پوری طرح سوکھنا ضروری نہیں، تین مرتبہ اس طرح کرنے سے کارپٹ پاک ہو جائے گا، تاہم اگر کارپٹ اٹھا کر دھونے میں دشواری ہو، تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ ایک یہ بھی ہے، کہ کسی پاک کپڑے کو پانی میں بگھو کر اس کے ذریعے ناپاک جگہ کو دھویا جائے یہاں تک کہ ناپاکی دور ہو جائے، تو کارپٹ پاک ہو جائے گا۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الھندیة للجنة العلماء، کتاب الطھارة، الفصل الأول في تطهير النجاسات 1/ 42:
وما لا ینعصر یطھر بالغسل ثلاث مرات، والتجفیف فی کل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة، وحدّ التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولا يشترط فيه اليبس، هكذا في التبين، وهذا إذا تشربت النجاسة كثيرا، وإن لم تتشرب فيه، أو تشربت قليلا، يطهر بالغسل ثلاثا، هكذا في محيط السرخسي.
وفي بدائع الصنائع للكاساني،كتاب الطهارة، فصل في شرائط التطهير بالماء 1/ 452:
وإن كان مما لا يمكن عصره، كالحصير المتخذ من البوري ونحوه، أي: ما لا ينعصر بالعصر إن علم أنه لم يتشرب فيه، بل أصاب ظاهره، يطهر بإزالة العين، أو بالغسل ثلاث مرات من غير عصر، فأما إذا علم أنه تشرب فيه، فقد قال أبو يوسف: ينقع في الماء ثلاث مرات، ويجفف في كل مرة، فيحكم بطهارته، وقال محمد: لا يطهر أبدا.
وفي رد المختار لابن عابدين، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 331:
(وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصرثلاثا) أو سبعا (فیما ینعصر) مبالغا بحيث لا يقطر… (و) قدر (بتثلیث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي غير منعصر مما يتشرب النجاسة، وإلا فبقعلها كما مر، وهذا كله إذا غسل في إجانة أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقا بلا شرط عصر، وتجفيف، وتكرار غمس، هو المختار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:23
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-28

 




بارش کی چھینٹوں کا حکم@123

سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر بارش کے چھینٹے کسی کے بدن  یا کپڑوں پر لگ جائیں، تو ان سے بدن یا کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں یا نہیں؟
جواب:
چونکہ بارش کے پانی سے اپنے آپ کو بچانے میں حرج ہے، اس لیے بارش کے چھینٹے اگر بدن یا کپڑوں کو لگ جائیں، تو معاف ہیں، تاہم ان کو دھو لینا بہتر ہے۔

حوالہ جات:
لما في قوله تعالی:
وأنزلنا من السمآء مآء طهورا.( الفرقان25/ 48)
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة، الفصل الرابع في المياه التي يجوز بها الوضوء، والتي لا يجوز بها 1/ 240:
المطر ما دام المطر فله حكم الجريان، حتی لو أصاب العذرات علی السطح لا ينجس.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الباب الثالث في المیاہ 1/ 17:
ما دام المطر فله حكم الجريان، لو أصاب العذرات علی السطح لا ينجس.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب: في العفو عن طين الشارع 1/ 583:
طين الشوارع عفو، وإن ملأ الثوب؛ للضرورة، ولو مختلطا بالعذرات، وتجوز الصلاة معه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:16
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-28

 




ناخنوں پر نیل پالش کے ہوتے ہوئے وضو کرنا:

سوال:
   آج کل عورتیں ناخن پر پالش لگاتی ہیں، تو اس کے ہوتے ہوئے وضو ہو جائے گا یا نہیں؟
جواب:
   اگر وضو کرتے وقت ناخن پالش  کے نیچے ناخن تک پانی نہ پہنچتا ہو، تو وضو سے پہلے اس کا اتارنا ضروری ہیں،ورنہ وضو درست نہیں ہوگا۔ 

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفي، کتاب الطھارة 1/ 313:
   (ویجب) أي: یفرض غسل کل ما یمکن من البدن بلا حرج … وشرط لتصحیح الوضوء زوال ما یبعد إیصال المیاہ من أدران کشمع ورمص إلخ.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1/ 4:
   إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة، أو لزق بأصل ظفره طين يابس، أو رطب، لم يجز.
3. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، باب فرائض الوضوء 1/ 29:
   ولو لصق بأصل ظفره طين يابس، وبقي قدر رأس إبرة، لم يجز.
4. فتاوى قاضي خان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الطهارة، الفصل الأول في الوضوء 1/ 208:
  ولو کان جلد سمك أوخبز ممضوغ قد جف فتوضأ، ولم يصل الماء إلى ما تحته، لم يجز؛ لأن التحرز عنه ممكن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:112
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-25




نفاس کا خون بالکل نہ آنے کی صورت میں غسل کا حکم:

سوال:
   اگر کسی عورت کا بچہ پیدا ہونے پر اس کو خون بالکل نہ آئے، تو عورت کے ذمہ غسل کرنا لازم ہے یا نہیں؟
جواب:
   بچہ پیدا ہونے پر کسی عورت کو نفاس کا خون آنا کوئی ضروری نہیں، لہذا اگر کسی عورت کو نفاس کا خوان بالکل نہ آئے تب بھی اس پرغسل کرنا کرنا لازم ہے۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى التارتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/ 290:
   وفي الظھيرية: المرأة إذا ولدت ولدا، ولم تر الدم، هل يجب عليها الغسل؟ الأصح أنه يجب.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل 1/ 16:
   المرأة إذا ولدت، ولم تر الدم هل يجب عليها الغسل؟ والصحيح أنه يجب، كذا في الظهيرية.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب في رطوبة الفرج 1/ 338:
قوله: (أو ولدت، ولم تر دما) هذا قول الإمام، وبه أكثر المشايخ، وعند أبي يوسف، وهو رواية عن محمد، لا غسل عليها لعدم الدم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:111
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-25




123@ کپڑوں پر منی لگی ہو اور احتلام کا وقت معلوم نہ ہو

سوال:
زید کو احتلام ہوا، صبح اٹھ کر غسل کرکے کپڑے دھو ليے، دو دن کے بعد جب کپڑے تبدیل کرنے لگا، تو کپڑوں پر منی کا دھبہ نظر آگیا اب ان کپڑوں میں پڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ کرے گا یا نہیں؟
جواب:
شریعت میں کسی چیز کو حتی الامکان قریبی وقت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے،  لہذا دو دن بعد کپڑے تبدیل کرتے وقت منی کا  دھبہ دیکھنے کی صورت میں یوں سمجھا جائے گا کہ یہ نشانات اس گزشتہ آخری رات کے ہیں، تو اس پر دوبارہ غسل کرنا فرض ہوگا اور اس رات کے بعد جتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری ہے۔ 

حوالہ جات:
وفي الدر المختار للحصكفي  مع رد المحتار،كتاب الطهارة، باب المياه  1/ 420:
(فروع):وجد في ثوبه منيا أو بولا أو دما أعاد من آخر احتلام وبول ورعاف.
قال ابن عابدين، قوله: (أعاد من آخر احتلام إلخ) لف ونشر مرتب وفي بعض النسخ: من آخر نوم، وهو المراد بالاحتلام؛ لأن النوم سببه، كما نقله في «البحر».
وفي الجوهرة النيرة أبو بكر بن علي،  كتاب الطهارة 1/ 60:
ولو وجد في ثوبه منيا أعاد الصلاة من آخر نومة نامها فيه.
لما في البحرالرائق، كتاب الطهارة،1/ 220:
 فروع: ذكر ابن رستم في نوادره عن أبي حنيفة: من وجد في ثوبه منيا أعاد من آخر ما احتلم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:110
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




123@کسی عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنے سے وضو کا حکم

سوال:
 جو شخص با وضو ہو، اور اس کی نظرشہوت سے کسی عورت پر پڑجائے ، تواس سے وضو  ٹوٹ  جاتا ہے یا  نہیں ؟
جواب:
عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنا جائز نہیں ہے، تاہم اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ بد نظری  کرنا چونکہ گناہ ہے، لہٰذا اس کے بعد دوبارہ وضو بنانا بہتر ہے، تاہم اگر دیکھنے کے ساتھ مذی وغیرہ نکلے، تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

حوالہ جات:
لما في الأصل للإمام محمد بن الحسن الشيباني، كتاب الصلاة، باب الوضوء والغسل من الجنابة 1/ 36:
قلت: أرأيت رجلا توضأ، ثم نظر إلى امرأته من شهوة ولم يمذ، هل يجب عليه الوضوء؟ قال: لا.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب نواقض الوضوء 1/ 284:
(وینقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي: من المتوضئ الحي معتادا، أو لا، من السبيلين، أو لا، (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول أي: يلحقه حكم التطهير.
وفيه أيضا، كتاب الطهارة 1/ 206:
ومندوب في نيف وثلاثين موضعا، ذكرتها في (الخزائن) منها بعد كذب وغيبة … وبعد كل خطيئة.
وفي الفتاوى التاتار خانية لعالم بن علاءالهندي، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/ 284:
وليس في المذي والودي غسل، وفيهما الوضوء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:109
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




ہیٹرکےسامنے نماز پڑھنا کیسا ہے؟:

سوال:
   سردیوں کے موسم میں مساجد میں نمازیوں کے سامنے ہیٹر لگے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کے سامنے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب:
   ہیٹر کے سامنے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، کیونکہ اس کی  وجہ سے آگ کا پوجا کرنے والوں کے  ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی؛ اس وجہ سے کہ وہ  لوگ جس آگ کی عبادت کرتے ہیں وہ یا تو آتشدان میں آنگاروں کی صورت میں ہوتی ہے یا تنور میں بھڑکائی جاتی ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ ہیٹر قبلہ کی بجائے شمال یا جنوب کی جانب لگایا جائے تاکہ دل میں وسوسہ سے حفاظت ہو یا ہیٹر کے سامنے لو ہے وغیرہ کی تختی لگائی جائے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 56:
   (قوله: وإلى مصحف، أو سيف معلق) أي: لا يكره … (قوله: أو شمع أو سراج) ؛لأنهما لا يعبدان، والكراهة باعتبارها، وإنما يعبدها المجوس إذا كانت في الكانون وفيها الجمر، أو في التنور، فلا يكره التوجه إليها على غير هذا الوجه، وذكر في غاية البيان اختلاف المشايخ في التوجه إلى الشمع أو السراج، والمختار أنه لايكره.
2. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني في ما يكره في الصلاة وما لا يكره1/ 108:
   من توجه في صلاته إلى تنور فيه نار تتوقد، أو كانون فيه نار يكره، ولو توجه إلى قنديل، أو إلى سراج لم يكره، كذا في محيط السرخسي وهو الأصح.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 1/ 417:
   (أو شمع أو سراج)؛ لأنهما لا يعبدان والكراهة باعتبارها، وإنما تعبدها المجوس إذا كانت في الكانون وفيها الجمر، أو في التنور، فلا يكره التوجه إليها على غير ذلك الوجه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:4
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22

 




123@غسل خانے میں دعا پڑھنے کا حکم

سوال:
کیا غسل خانے میں وضو کرتے وقت دعاؤں کا پڑھنا درست ہے، یا نہیں؟
جواب:
اگر غسل خانے میں بیت الخلاء (قضائے حاجت) کے لیے بھی جگہ بنائی گئی ہو، یعنی اٹیچ باتھ ہو، تو اس طرح کے غسل خانہ میں وضو کرتے ہوئے زبان سے دعائیں نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ دل میں پڑھ سکتے ہیں اور اگر غسل خانہ میں قضائے حاجت کے لیے جگہ بنی ہوئی نہ ہو اور صاف ستھرا ہو، تو ایسی صورت میں وضو کی دعائیں زبان سے پڑھ لینے میں مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 39:
ويسمي قبل الاستنجاء وبعده هو الصحيح إلا مع الانكشاف وفي موضع النجاسة.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطهارة1/ 20:
ويسمي قبل الاستنجاء وبعده هو الصحیح.
قال ابن الهمام تحت قوله: (هو الصحيح) احتراز عما قيل: قبله فقط، وما قيل: بعده فقط؛ لأن ما قبله حال الانكشاف، والأصح قبله أيضا لا حال الانكشاف ولا في محل النجاسة.
وفي الدرالمختار للحصكفي مع ردالمحتار،كتاب الطهارة، سنن الوضوء 1/ 241،242:
والبداءة (بالتسمية) قولا … (قبل الاستنجاء) وبعده إلا حال انكشاف وفي محل النجاسة، فيسمي بقلبه.
قال ابن عابدين تحت قوله: (إلا حال انكشاف إلخ) الظاهر أن المراد أنه يسمي قبل رفع ثيابه إن كان في غير المكان المعد لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخوله، فلو نسي فيها سمى بقلبه، ولا يحرك لسانه تعظيما لاسم الله تعالى.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهة، الباب الرابع في الصلاة والتسبيح وقراءة القرآن والذكر والدعاء ورفع الصوت عند قراءة القرآن 5/ 389:
قراءة القرآن في الحمام على وجهين: إن رفع صوته يكره، وإن لم يرفع لايكره، وهو المختار، وأما التسبيح والتهليل لا بأس بذلك وإن رفع صوته، كذا في الفتاوى الكبرى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:107
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-22